فانٹین بلو میں لیب ریٹریٹ
ہر لیبارٹری کا ایک کلچر ہوتا ہے، جس پر لیب کی زرخیزی اور پیداوار کا انحصار ہوتا ہے۔۔اس کلچر کی بنیادی اکائیاں سپروائزر، طالبعلم، مثبت تحقیقی ماحول، مناسب سامان اور وسائل کا ٹھیک انتظام وغیرہ ہیں۔۔۔
ان میں سپروائزر کا رویہ، سینئرز کی رہنمائی، آپکی محنت اور دیانتداری (بشمول کام اور دیگر تحقیقی اخلاقیات) وہ بنیادی چیزیں ہیں جن سے نہ صرف آپکا مستقبل بن یا بگڑ سکتا ہے بلکہ دوسروں پر بھی اسکے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔۔
ان تمام اجزاء کو صحیح مقدار میں یکجا کرنا اور مناسب آنچ پر پکانے سے بہترین نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔۔۔
چونکہ سائینس بھی نہ تو جامد چیز، نہ ہی سب لیبز کا کام ایک جیسا، نہ وسائل اور نہ ہی مسائل تو اس کے لئے کوئی خاص گائڈ لائن بھی نہیں اور ہر سب اپنے تئیں تیر تکے اور عطائی طریقے سے اس کو چلاتے۔۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ ان چیزوں میں بھی بہتری لانے کیلئے گائڈ لائنز بنائی جا رہی ہیں لیکن پھر بھی بہر حال خاموش علم کی طرح یہ بھی زیادہ ڈاکومینٹڈ نہیں اور ایک دوسرے تک تجربے یا زبانی کلامی پہنچتا۔۔۔
اتنی تمہید کیوں باندھ رہی ہوں، مجھے خود بھی نہیں پتا مگر مقصد ایک لیب ریٹریٹ کا حال بیان کرنا ہے تاکہ کوئی کسی انداز میں اس سے مستنفید ہونا چاہے تو ہو سکے۔۔۔
طالبعلموں کو ریلیکس رکھنے، اور ریچارج کرنے کیلئے جہاں دیگر چیزیں متعارف ہوئیں وہیں لیب ریٹریٹ نے بھی جنم لیا۔۔
اصلی تاریخ تو معلوم نہیں مگر پرانے سائنسدانوں کی یاداشتوں اور تصاویر سے بہتیرے ثبوت ملتے ہیں کہ وہ کام کے سلسلے میں اور اپنے نتائج دوسروں کے ساتھ بانٹنے تو جاتے ہی تھے، تفریح کیلئے بھی سفر کرتے...
مختلف لیبز اپنے وسائل کے مطابق اور پروفیسر اپنے وقت اور مزاج، لیب کے سائز اور دیگر چیزوں کی روشنی میں طے کرتے کہ کس قسم کی لیب ریٹریٹ کی جائے۔۔
کچھ سال میں دو چار دفعہ شغل فرما لیتے، کچھ ایک ہی بار دو چار دن، کچھ خالی ایک دن، کچھ حصوں میں یعنی پوسٹ ڈاکس کی الگ، مینیجیریل سٹاف اور پوسٹ ڈاکس کی اور ساری لیب یا جونئیر طالبعلموں کی الگ الگ کر لیتے۔۔۔
اسی نسبت کچھ تو دوسرے ملکوں میں ارینگ کر لیں، کچھ سمندر کنارے اور کچھ پہاروں کے پاس۔۔
کچھ تو سردیوں کی بارش میں ہوٹل ہی میں بئیر شئیر پلا کر قصہ ختم کر ڈالیں۔۔۔
اب اس میں بھی مزید کچھ تو پریزنٹیشن رکھ دیں سبکی، کچھ ساتھ کی لیب ملا کر تاکہ سب کا نالج ایکسچینج ہو جائے اور کچھ بس فن اور تھوڑی سی سائینسی ایکٹیویتیز کا تڑکہ لگا دیں۔۔
اس میں بھی پاور پوائنٹ سے لیکر پوسٹر اور سفید بورڈ کے ساتھ یا صرف کسی خاص موضوع پر غیر روائتی انداز میں گفتگو۔۔
کچھ تو مل کر ٹینٹ لگائیں، مچھلیاں پکڑ کر خود ہی بنائیں اور کچھ بنا بنایا کھانا لے جائیں۔۔ہوٹل میں ٹھرنے والے البتہ ہوٹل سے ہی کھا لیں۔۔
معاف کرنا، تفصیل پھر بور اور لمبی ہو رہی مگر مقصد ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ جانیں تو اسطرح لکھنا مجبوری۔۔۔
خیر اس سال ہماری لیب کا اشتراق دو اور لیبز کے ساتھ ہوا ہے تو سبا کام اچھے ماحول میں جاننے، آئیڈیاز ایکسچینج کرنے اور فن کرنے کیلئے فانٹین بلو کا انتکاب ہو۔۔۔انتکاب کیا ہوا، سپروائزر کو پسند تو بس کہہ دیا کہ سب وہاں جا رہے۔۔
میری کسی وجہ سے ڈھیر سارے اختلافات اور لڑائیاں چل رہیں تو میں نے معزرت کی مگر سپروائزر کی کچھ پلاننگز کہہ لیں یا دور اندیشی یا مسئلہ کہ ڈاکس کو لے کر جانا ضروری تھا تو کچھ ردوقد کے بعد معاملہ طے پایا کہ مجھے بھی ساتھ لے کر جایا جائے مگر کچھ وجوہات کی بناء پر میں کام اپنا پرانا یعنی پی ایچ ڈی کا پریزینٹ کروں۔۔۔اور میرا کام ایک نئی آنے والی طالبہ پریزینٹ کرے۔۔خیر فانٹین بلو پیرس اور میری لیب سے پچپن کلومیٹر دور اور اسی سفری پاس پر ٹرین میں وہاں جا سکتے تھے اسلئے ٹرانسپورٹ ارینج کرنے کی خاص ضرورت نہیں تھی۔۔۔جسکا دل چاہے، اپنی گاڑی سے آئے اور دوسروں کو بھی بٹھا لے ورنہ سبکا پاس تو ہے ہی اوروہ ٹرین سے مقررہ وقت تک فانٹین بلو پہنچ جائیں۔۔
اب سبکو فکر پڑ گئی کہ روزے ہیں اور یہ بیچاری کیا کرے گی۔۔۔اب میں سارے پول نہیں کھول رہی مگر بات یہ کہ میری چھٹی تھی۔۔۔اسلئے کوئی فکر نہیں تھی۔۔
البتہ میری پرائیویسی کی خاطر ارینج کرنے والے کارڈینیٹر نے الگ سے بلا کر پوچھا کہ رمضان کر رہی ہو؟تو تمہارے لئے الگ سے بندوبست کرواؤں۔۔۔
میں نے کہا کہ نہیں سفر میں معاف ہوتا۔۔
اسکا یہ بتانا تھا سبکو کہ ہمارا کمپیوٹر سرور کی دیکھ بھال کرنے والا شخص، جو مراکش سے اور مسلمان۔۔
وہ امام صاحب کے پاس جا پہنچا کہ سفر تو کر رہے مگر کتنے لمبے پر روزہ معاف۔۔۔
اب امام صاحب نے کہہ دیا، اسی کلومیٹر۔۔۔
اور فانٹین بلو صرف پچپن کلومیٹر۔۔۔کسی نہ کسی طرح اسکو میں نے ارد گرد کا سفر (یعنی گھر سے دفتر اور باقی ملا کر بہتر کلومیٹر بنایا) مگر اسی سے بہر حال کم ہی بنا۔۔
اسکو دل میں سو سو سنائیں اور کہا کہ مختلف امام مختلف کہتے، اسکو کنفرم کرنا پڑے گا۔۔۔
اور کنفرم میں خود کروں گی :ڈ
اب دل ڈر بھی رہا تھا کہ یہ پاکستان تو نہیں کہ پانچ سو دے دلا کر مرضی کا فتوی لے لیا جائے۔۔خیر ڈرامہ ہی تھا ورنہ روزہ رکھنے میں کیا مسئلہ۔۔۔
خیر جو بھی ہوا پس پردہ، میں نے روزے سے چھٹی ماری اور اوپر سے مسکیں سی روزہدار شکل بنا کر ٹرین پکڑی۔۔
ہاں کپڑے بھی لئے تھے بھئی ساتھ اور کچھ ہلکی پھلکی کھانے والی اشیا،ناول، پانی کی بوتل بھی بیگ میں ڈال لی تھی۔۔
لیپ ٹاپ وغیرہ بھی کیونکہ پریزنٹیشن دینی تھی۔۔۔
چونکہ فانٹین بلو کا جنگل بہت بڑا اور یہاں کم اونچی سطح کے پتھر جن پر چڑھنے کیلئے نہ صرف بڑے بلکہ خاص طور پر بچے بھی لائے جاتے۔۔
اس کیلئے مختلف گروپس ویک اینڈ پر بھی جاتے اور بہت اچھت نقشے اور تفصیلات مہیا کرتے، جن کے مطابق لوگ پتھروں پر چڑھتے اور مختلف ایکٹیویٹیز کرتے۔۔۔
رہائش کیلئے فانٹین بلو میں ہاسٹل بھی اور انہی ہاسٹلز کے لان میں ٹینٹ بھی، ہٹس بی اور ہوٹل بھی۔۔۔کچھ لوگ کیمپنگ لیکئے کارواں بھی لے کر جاتے۔۔۔
خیر ہم نے تو ہوٹل میں سٹے کرنا تھا اور دن میں پریزنٹیشن کے بعد مختلف ایکٹیویٹیز جن میں درختوں پر چڑھنا، پتھروں پر چڑھنا، مختلف کھیل اور وغیرہ شامل تھے۔۔
بعض تفصیلات ہزف کر رہی ہوں کہ بہر حال ہر لیب کی پرائیویسی بھی ہوتی اور سب باتیں کرنا مناسب نہیں۔۔۔
میں تو روزہ دار بھی تھی اور ان چیزوں میں انٹرسٹ بھی نہیں اسلئے میں ناول پڑھتی رہی۔۔
یہ پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ میں کسی گروپ کے ساتھ نہ جاؤں اور اپنے کمرے میں بند رہوں یا جنگل میں گھوموں، مجھے کوئی تنگ نہ کرے گا۔۔۔
باقی تو پہلے بھی خیال کرتے آپکی مرضی کا، بس میرے سپروائزر کو مسئلہ ہوتا۔۔
خیر۔۔۔
باقیوں کی پریزنٹیشنز اور ساری ڈسکشنز فرنچ میں رکھی گئیں جس سے میرے پلے کچھ نہیں پڑا اور بہرا بن کر بیٹھنا پڑا۔۔
لیکن جنگل میں وقت اچھا گزرا۔۔
تصاویر بھی بنائیں اور فطرت کے قریب وقت بھی اچھا گزارا۔۔۔
البتہ میری پرائیویسی کی خاطر ارینج کرنے والے کارڈینیٹر نے الگ سے بلا کر پوچھا کہ رمضان کر رہی ہو؟تو تمہارے لئے الگ سے بندوبست کرواؤں۔۔۔
میں نے کہا کہ نہیں سفر میں معاف ہوتا۔۔
اسکا یہ بتانا تھا سبکو کہ ہمارا کمپیوٹر سرور کی دیکھ بھال کرنے والا شخص، جو مراکش سے اور مسلمان۔۔
وہ امام صاحب کے پاس جا پہنچا کہ سفر تو کر رہے مگر کتنے لمبے پر روزہ معاف۔۔۔
اب امام صاحب نے کہہ دیا، اسی کلومیٹر۔۔۔
اور فانٹین بلو صرف پچپن کلومیٹر۔۔۔کسی نہ کسی طرح اسکو میں نے ارد گرد کا سفر (یعنی گھر سے دفتر اور باقی ملا کر بہتر کلومیٹر بنایا) مگر اسی سے بہر حال کم ہی بنا۔۔
اسکو دل میں سو سو سنائیں اور کہا کہ مختلف امام مختلف کہتے، اسکو کنفرم کرنا پڑے گا۔۔۔
اور کنفرم میں خود کروں گی :ڈ
اب دل ڈر بھی رہا تھا کہ یہ پاکستان تو نہیں کہ پانچ سو دے دلا کر مرضی کا فتوی لے لیا جائے۔۔خیر ڈرامہ ہی تھا ورنہ روزہ رکھنے میں کیا مسئلہ۔۔۔
خیر جو بھی ہوا پس پردہ، میں نے روزے سے چھٹی ماری اور اوپر سے مسکیں سی روزہدار شکل بنا کر ٹرین پکڑی۔۔
ہاں کپڑے بھی لئے تھے بھئی ساتھ اور کچھ ہلکی پھلکی کھانے والی اشیا،ناول، پانی کی بوتل بھی بیگ میں ڈال لی تھی۔۔
لیپ ٹاپ وغیرہ بھی کیونکہ پریزنٹیشن دینی تھی۔۔۔
چونکہ فانٹین بلو کا جنگل بہت بڑا اور یہاں کم اونچی سطح کے پتھر جن پر چڑھنے کیلئے نہ صرف بڑے بلکہ خاص طور پر بچے بھی لائے جاتے۔۔
اس کیلئے مختلف گروپس ویک اینڈ پر بھی جاتے اور بہت اچھت نقشے اور تفصیلات مہیا کرتے، جن کے مطابق لوگ پتھروں پر چڑھتے اور مختلف ایکٹیویٹیز کرتے۔۔۔
رہائش کیلئے فانٹین بلو میں ہاسٹل بھی اور انہی ہاسٹلز کے لان میں ٹینٹ بھی، ہٹس بی اور ہوٹل بھی۔۔۔کچھ لوگ کیمپنگ لیکئے کارواں بھی لے کر جاتے۔۔۔
خیر ہم نے تو ہوٹل میں سٹے کرنا تھا اور دن میں پریزنٹیشن کے بعد مختلف ایکٹیویٹیز جن میں درختوں پر چڑھنا، پتھروں پر چڑھنا، مختلف کھیل اور وغیرہ شامل تھے۔۔
بعض تفصیلات ہزف کر رہی ہوں کہ بہر حال ہر لیب کی پرائیویسی بھی ہوتی اور سب باتیں کرنا مناسب نہیں۔۔۔
میں تو روزہ دار بھی تھی اور ان چیزوں میں انٹرسٹ بھی نہیں اسلئے میں ناول پڑھتی رہی۔۔
یہ پہلے ہی طے ہو چکا تھا کہ میں کسی گروپ کے ساتھ نہ جاؤں اور اپنے کمرے میں بند رہوں یا جنگل میں گھوموں، مجھے کوئی تنگ نہ کرے گا۔۔۔
باقی تو پہلے بھی خیال کرتے آپکی مرضی کا، بس میرے سپروائزر کو مسئلہ ہوتا۔۔
خیر۔۔۔
باقیوں کی پریزنٹیشنز اور ساری ڈسکشنز فرنچ میں رکھی گئیں جس سے میرے پلے کچھ نہیں پڑا اور بہرا بن کر بیٹھنا پڑا۔۔
لیکن جنگل میں وقت اچھا گزرا۔۔
تصاویر بھی بنائیں اور فطرت کے قریب وقت بھی اچھا گزارا۔۔۔
خیر باقیوں نے کافی انجوائے کیا اور جو لوگ لیب میں جلے بھنے یا سیریس ہوتے، وہ بھی کافی اچھل کود کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔۔۔شاتو بھی گئے۔۔۔شاتو میں بھی گئی حالانکہ میرا جی اوبھ گیا ہے اب میوزیم اور شاتوز سے۔۔۔
خیر اللہ اللہ کر کے تین دن کٹے۔۔۔
مجھے اسی لئے ایسی چیزوں میں شرکت پسند نہیں تاکہ الگ نمونہ نہ بننا پڑے۔۔۔مگر مجبوری تھی اس بار۔۔۔
تو تیسرے دن اپنے اپنے سامان اٹھائے اور واپسی۔۔
خیر اللہ اللہ کر کے تین دن کٹے۔۔۔
مجھے اسی لئے ایسی چیزوں میں شرکت پسند نہیں تاکہ الگ نمونہ نہ بننا پڑے۔۔۔مگر مجبوری تھی اس بار۔۔۔
تو تیسرے دن اپنے اپنے سامان اٹھائے اور واپسی۔۔
نوٹ: یہ تحریر پچھلے سال لکھی گئی تھی مگراب پبلش کی ہے۔۔۔تب سے یونہی رکھی تھی۔۔۔جلد ہی باقی تحریریں بھی ڈالنے کی کوشش کروں گی۔
0 comments:
Post a Comment