عمیرہ احمد کی جادوئی ریسرچر

 وہ صبح چار بجے اٹھی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی کچن میں گئی۔۔۔

جہاں اس نے سب سے پہلے تین چوہے اور ایک چھچھوندر پکڑ کر سائلنسر والی چپل سے بیہوش کئے۔۔۔
یہ چوہے ریسرچ کے کام تو نہ آ سکتے تھے کیونکہ یہ وہ خاص بریڈ نہیں تھا جس پر کام ہو سکے۔۔۔
ریسرچ کیلئے اگر نارمل تجربہ کرنا ہو تو لٹریچر میں موجود چوہے کی نسل پر کرنا ہوتا جو سبکو باآسانی دستیاب ہو تاکہ دنیا کے باقی محقق بھی اس پر کا م کر سکیں۔۔۔
اور تجربے کی نقل کر سکیں۔۔۔
اسلئے اس نے انکو بیہوش کر کے شاپر میں ڈال لیا تاکہ اپنی لیب کے پیچھے واے میدان میں بیٹھے ہوئے گدھ اور کووں کو ڈال سکے۔۔۔
اسطرح نیکیاں کماتی وہ۔۔۔
مارے اسلئے نہیں کہ اگر خون نکل آتا اور جراثیم پھیلنے کا خدشہ ہوتا۔۔۔پھر بھی اس نے جگہ پر ڈیٹول والے پانی میں لیوینڈر والا محلول ملا کر سپرے کر دیا۔۔۔تاکہ ممکنہ جراثیم بھینی بھینھی خوشبو کے زیر اثر اگلے جہان کے سفر پر روانہ ہوں۔۔
کسی کو تکلیف دینا تو اسکا شیوہ ہی نہ تھا۔۔۔
پھر وہ اس کار خیر سے واپس آئی اور اس نے گوگل سکالر کھول کر کل رات سے اس وقت تک دشمن ملکوں سے چھپنے والی ساری تحقیقات کا مطالعہ کیا۔۔۔
گھڑی دیکھی تو صرف سوا چار بجے تھے۔۔۔
وہ اخبار کیلئے کالم لکھنے بیٹھ گئی۔۔۔
اور نئی نسل کی ذہن اور فکر سازی کیلئے آسان لفظوں میں ایک ہزار حروف پر مشتمل جامع مضمون لکھ کر ایک کاغذ سے لفافی بنا کر اس میں ڈالا اور اپنی لیبارٹری میں تیار کردہ سپر ڈوپر گلو سے اسکو سیل کر دیا۔۔۔پھر اپنے بیگ میں ڈال کر واش روم کا رخ کیا۔۔۔
گلو والا تجربہ پھر کبھی تفصیل سے۔۔۔
آکسیجن اور ہائڈروجن کے سیلنڈر کے نیچے اپنی ہی لیب کی بنائی دیا سلائی دکھائی اور ننھے ننھے بننے والے پانی کے قطروں سے وضو فرمایا۔
مجال ہے جو ایک بھی قطرہ ضائع ہوا ہو۔۔
یہ ری ایکشن بہت ہی کنٹرولڈ اور پاکستان کے ایٹمہ اثاثوں سے بھی زیادہ محفوظ اور زود اثر تھا۔۔۔
اسکے بعد وہ آ کر نفل پڑھنے لگی۔۔۔نفلوں کے بعد اس نے ماربل کی بنی تسبیح پر وظیفے کئے۔۔یہاں تک کہ موذن نے اذان دی۔۔
نماز کے بعد اس نے پانچ منٹ میں سارے گھر کا ناشتہ بنایا۔۔۔
ناشتے میں ڈائٹ چارٹس کے مطابق ہر فرد کی بیماری اور صحت کے عین مطابق وٹامن اور کیلوریز تھیں۔۔۔
اپنے لئے اس نے پچاس گرام ایووکاڈو، دس کرام کیوی فروٹ، سو گرام اخروٹ، بیس گرام بادام اور ہم وزن گھیا کدو کے بیج والی سموتھی بنائی۔۔۔
لنچ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اسکی اپنی تیار کردا ایک گولی ’ہارمینا‘ لنچ اور سارے دن کی بھاگ دوڑ کیلئے کافی تھی۔۔۔
اس نے ناشتی ٹیبل پر رکھا اور سب کے کپڑے پریس کر کے رکھے۔۔
شاور لے کر وہ تیار ہوئی اور وین کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
ابھی وین آنے میں پانچ منٹ تھے۔۔۔اسلئے اس نے موبائل پر قرآن مجید کھولا اور تلاوت کرنے لگی۔۔۔
اتنے میں وین کی پاں پاں کی آواز آئی۔۔۔
وہ ایک تمکنت سے چلتی ہوئی جا کر وین میں بیٹھ گئی۔۔۔
وین میں بیٹھ کر اس نے سورت مکمل کی۔۔۔ارد گرد کا جائزہ لیا اور جیب سے ٹشو نکال کر وین کی چھت سے لگا جالا اور کھڑکی پر جمی گرد صاف کی۔۔باہر کا منظر واضح ہو گیا تھا۔۔۔
اسی اثناء میں وین نکڑ پر دوسری کولیگ کو پک کرنے پہنچ چکی تھی۔
کل کی بارش سے جو سہانے کیچڑ بھرے منظر باہر نظر آ رہے تھے، ان سے نظر چرا کر اس نے لڑکی پر نظریں جما دیں۔۔۔
یہ لڑکی سفید رنگ کے کلف والے کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھی اور مجال ہے کہ کہیں سلوٹ ہو۔۔۔
دوپٹا اس نے یو ٹیوب سے ٹیوٹوریل دیکھ کر ایک خاص انداز میں لے رکھا تھا۔۔۔اس سٹائل کی منفرد بات یہ تھی کہ بغیر کسی سیفٹی پن کے بھی دوپٹہ سلیقے سے سر پر جما رہتا اور بالکل نہ سرکتا۔۔۔
لڑکی نے پاؤں میں بارہ انچ لمبی ہیل والا جوتا پہن رکھا تھا۔۔۔جوتا فل کوورڈ تھا...اس کے دو فوائد تھے...تجربے کے دوران کچھ گر جائے تو پاؤں محفوظ رہے اور دوسرا دینی نقطہ نظر سے بھی پردہ برقرار رہے...واہ کیا بات ہے....
اس ہیل کے ساتھ چلنا اور بیلنس برقرار رکھنا اس لڑکی کا ہی کمال تھا۔۔۔وہ دل ہی دل میں اسکی معترف ہوئی۔۔۔
ایک تو چٹ کپڑی, اوپر سے بارہ انچ ہیل...
اللہ اللہ..یہ صوفیانہ انداز اور فیشن کا امتزاج کسی فاطمہ جناح یونیورسٹی کی لڑکی کا ہی خاصہ ہو سکتا مگر یہ تو کراچی یونیورسٹی سے تھیں اور پنڈی کبھی نہ گئی..سچ ہے سائنسی درویشوں کو ایک دوسرے سے راہ ہوتی ہے اور ملے بغیر بھی وہ ملتے جلتے ہیں..
وہ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھی اور جدید انٹرنیٹ کے دور میں دوسری یونیورسٹیوں کے ریسرچرز..ًیرا مطلب سائنسی درویشوں سے براہ راست جڑی ہوئی تھیں....
خیر, وہ سوچنے لگی جو لڑکی بارہ انچ کی ہیل کے ساتھ چل سکتی ہے، وہ زندگی کے ہر میدان میں کمال دکھا سکتی ہے۔۔۔
اتنے میں لڑکی چھوٹے چھوٹے قدم بھرتی وین میں آ کر بیٹھ گئی۔۔۔
ہاتھ ناک سے چار انچ کے فاصلے پر لیجا کر اس نے سلیقے سے اسلام علیکم کہا تو اس کے کانوں میں رس گھل گیا۔۔۔
جواب دے کر حال پوچھا اور رسمی جملوں کے بعد لیب میں ہونے والے تازہ ترین تجربات پر گفتگو ہونے لگی۔۔۔
اسی اثناء میں کھڑکی سے باہر بدوسری وین میں بیٹھے کچی جماعت کے بچے پر نظر پڑی تو وہ دیکھتی رہ گئی۔۔۔
یہ سیب جیسے موٹے موٹے گال اور پیارے گولڈن براؤں بال۔۔
مگر اسکے ہاتھ میں پکڑا چپس کا پیکٹ دیکھ کر وہ دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔
اللہ جی یہ مائیں کیوں کرتی ہیں ایسا ظلم۔۔۔
کیوں دیتی ہیں جنک فوڈ بچوں کو؟
یہ بات اس کے دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگی اور اسکو کائنات گھومتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔۔۔
اسی گھومتی کائنات میں سیاہ نظر آنے والے دائرے پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ اسکو بلیک ہول نظر آ رہا ہے۔۔۔
اس نے جلدی سے بیگ سے ٹیلی سکوپ نکال کر غور سے دیکھا۔۔۔
اور تیزی سے اپنے بیگ سے کاپی نکال کر اعداد و شمار نوٹ کئے کہ آج کی تاریخ میں بلیک ہول اس ڈائمنشن میں دکھا اور جوپیٹر اس سے ٖصرف چند ہی نوری سال کے فاصلے پر تھا۔۔۔
اگر حالات یونہی چلتے رہے تو ۲۰۲۰ تک قوی امکان تھا کہ جوپیٹر کا نام و نشان تک مٹ جاتا اور بلیک ہول میں ضم ہو جاتا۔۔۔
اس نے اپنا شاومی موبائل ٹچ سے کھولا اور گوگل پر کچھ لکھ کر یوفون کے سلو انٹرنیٹ سے پیج لوڈ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
اسی اثناء میں یونیورسٹی کا گیٹ آ گیا۔۔۔
اس نے چیزیں سمیٹی اور سیکورٹی والی خاتون کو بیگ چیک کروایا اور دوسری لڑکیوں کے بیگ چیک کرنے میں مدد کرنے لگی۔۔۔
اسکی کولیگ سیدھا لیب چلی گئی۔۔۔
اسکو دلی دکھ ہوا، لوگ کیوں بے حس ہو گئے ہیں۔۔
کیوں ہم دوسروں کی مدد نہیں کرتے۔۔۔
ہزاروں لڑکیوں کے بیگ چیک کر کے,کووں کو چوہے ڈالنے کے بعد جب وہ لیب پہنچی تو گھڑی نو بجا رہی تھی اور آگے جو منظر پیلا ہوا تھا، وہ بہت ہی دلخراش تھا۔۔۔
کسی لڑکی نے فلاسک توڑ دیا تھا اور اس میں موجود محلول سے ٹیبل اور شیلف آگ پکڑ چکی تھی۔۔۔
سپروائزر سبکو ڈانٹ رہی تھیں اور فون پر فائر برگیڈ بلا رہی تھیں۔۔۔
لڑکی کے ہاتھ سے کانچ لگنے کی وجہ سے لال لال خون ٹپک رہا تھا۔۔۔۔
اور وہ آنکھوں میں دو دو انچ کے آنسو اور ناک میں شیرہ لئے ہاتھ تھامے کھڑی تھی۔۔۔
اسکا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔۔۔
اس نے کلیجے کو واپس اسکی جگہ پر پہنچایا اور جلدی سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر مرہم پٹی کی۔۔
لڑکی مشکور نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔اسے اسکی محنت کا صلہ مل گیا تھا۔۔۔
وہ خوشی کے جزبے سے سرشار چار بالٹیاں پانی اٹھا لائی اور اکیلے ہی آگ بجھا ڈالی۔۔۔
وہ ایسی ہی تھی۔۔۔
کسی مدد کا انتظار کئے بگیر کام میں جت جانے والی۔۔۔
جیسے ہی آگ بجھنے سے پیدا ہونے والا دھواں سپروائزر کی ناک تک پہنچا، انہوں نے کھانسی کے دورے کے ساتھ ہی مڑ کر خونخوار انداز میں اس پر انگلی اٹھائی۔۔۔
پل میں سپر وومین کے جزبات پر منوں اوس پڑ گئی اور دکھ سے اسکی آنکھوں میں نمی آ گئی۔۔اتنے میں فائر برگیڈ کے سائرن کی آواز آئی اور سپروائزر اس طرف پلٹیں تو اسکی جان میں جان آئی۔۔
وہ فورا اپنا لیب کوٹ پہن کر لیب کے حساس حصے میں تجربات کرنے گم ہو گئی۔۔۔
یہ حصہ اسلئے حساس تھا کہ باقی لیب میں آلودگی کا کچھ چانس ہو سکتا تھا مگر یہاں لگا ہیپا فلٹر چند منٹ میں ساری آلودگی کو باہر پھیک دیتا تھا۔۔۔
سب سے پہلے اس نے ہیپا فلٹر آن کیا ۔۔۔۔یہ ایروسول اور مائیکرو حیاتیات یعنی بیکٹیریا فنگس کو ہوا سے ہٹا دیتا ہے۔۔۔
اور جراثیم سے پاک ماحول میں انسان تجربہ کر سکتا ہے۔۔۔اسکو چونکہ کم از کم دس منٹ پہلے آن کرنا ہوتا تو ایک منٹ میں اس نے ڈھیر ساری چیزیں آٹو کلیوو کے لئے لگا دیں تاکہ بعد میں کام آ سکیں۔۔۔
اگلے دو منٹوں میں اس نے سپرٹ سے ساری سطح کو صاف کیا اور خالی لیمپوں میں سپرٹ ڈالا۔۔۔
پھر لیپ ٹاپ آن کر کے نیچر، سائنس اور دیگر بڑے جریدوں کی سرخیاں اور مضمون سے مطابقت رکھنے والے پرچے دیکھے۔۔۔
اس سے فارغ ہوئی تو ابھی آٹھ منٹ ہوئے تھے اور دو منٹ باقی تھے۔۔۔
اس نے ٹویٹر اور فیسبک کھول کر ساری سیاسی و غیر سیاسی خبریں پڑھی، اپنے نادر کمنٹس لکھے اور سٹیٹس لگایا۔۔۔
ڈی پی بدلی۔۔۔
پروفائل کو نیا انداز دینے کیلئے اس نے بیک گراونڈ کوور بھی بدل دیا۔۔۔
گھڑی پر نظر ڈالی، ابھی بھی ایک منٹ باقی تھا۔۔
اس نے جونئیر ریسرچرز کی مدد کے لئے لیب کے ساتھ والے کمرے میں چکر لگایا جہاں ابھی یہ پود جوان ہو رہی تھی اور ریسرچ کے پہلے لیول کی مشقیں کر رہی تھی۔۔۔
انکے مسائل حل کر کے اور دیگر تجربوں کے پروٹوکولز میں اپنی تجاویز دے کر وہ واپس آئی اور کام میں جت گئی۔۔۔
پانچ سو بیکٹیریا کا ڈی این اے نکال کر پی سی آر لگانے اور جیلیٹن پر انکا سائز اور بینڈ چیک کرنے کے بعد اس نے انکا جینوم سیکونس کیا اور کمپیوٹر پر اس ڈیٹا کو جانچنے بیٹھ گئی۔۔۔
اتنے میں لنچ اور ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔۔۔
آٹو کلیوو سے سامان نکال کر کل کے تجربے کے لئے ترتیب دیا اور ہارمینا پانی کے گھونٹ کے ساتھ تناول کی۔۔۔یہ گولی ایک سپر گولی تھی جس میں ہر قسم کے وٹامن اور دس لاکھ کیلوریز تھیں۔۔۔
لیکن اس سے بندے کا وزن نہیں بڑھتا تھا۔۔۔اسی لئے وہ سمارٹنس میں اپنی مثال آپ تھی۔۔۔
پھر اس نے نماز پڑھی اور ایک چکر فیس بک اور ٹویٹر کا لگایا۔۔۔
اور واپس آ کر کام میں جت گئی۔۔۔
ڈیٹا اینالسس کرنے کے بعد اس نے پانچ پرچے لکھے، اور انکو فارمٹ کر کے پرنٹ لے کر سپروائزر کی میز پر چھوڑا۔۔۔
کل کے ٹھیک شدہ مسوودوں کی تصیح کر کے جرنل میں جمع کرایا۔۔۔
اور گھڑی دیکھی۔۔۔
وین آنے میں ابھی ایک گھنٹہ تھا۔۔۔
اس نے کولیبوریٹرز کو ای میلز کی اور سکائپ پر دوسرے ملک میں بیٹھے جونئیر ریسرچرز کی کلاس لی۔۔۔
انکو پڑھانے کے بعد اس نے بیٹھ کر ایک غزل لکھی اور بستہ پکڑ کر باہر آ گئی۔۔۔
چار بج چکے تھے اور گیٹ پر وین اسکا انتظار کر رہی تھی۔۔۔
گھر پہنچ کر نماز ادا کی اور سبکو چائے کے ساتھ گرما گرم سموسے پکوڑے بنا کر دئے۔۔۔
پھر مغرب کے بعد اس نے سبکے لئے رات کا کھانا بنایا، میٹھے میں کسٹرڈ بنا کر اس پر ناریل چھڑکا اور دسترخوان پر چن دیا۔۔۔۔
کھانا کھانے اور کھلانے کے بعد اس نے چٹکی بجاتے ہی برتن دھو ڈالے اور سبکے سونے کے بعد چھت پر آ کر چاند دیکھ کر اپنی ڈائری میں صبح والے اعداد و شمار کے حساب سے ایک ایکوویشن ترتیب دینے لگی۔۔۔

0 comments:

Post a Comment

Translate this blog:

Copyrights

Disclaimer

No responsibility is taken for any potential inaccuracies and/or errors in the text, and any damages that are incurred through the use of this material.Most of the material is sourced from internet and taken from other scientific blogs(text or idea;as well as pictures)& if you find any of your copyright material which you donot wish to appear on this blog,kindly inform at the e-mail id:ooogyx@gmail.com and it will be promptly removed.All the opinions expressed on this blog are solely of the author and not of any organization or institution.

  © MAD_HELIX

Design by OogYx